Wednesday, March 31, 2010
Subscribe to:
Posts (Atom)
# KAUKAB NOORANI OKARVI TRAVEL REPORT-2010 Newspaper clippings.
ان کا کرم پھر ان کا کرم ہے، ان کے کرم کی بات نہ پوچھو
Fazail e Masjid
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
چاروں طرف انہی کا اُجالا دِکھائی دے
﴿ سفر نامہ ﴾
تحریر : ڈاکٹر کوکب نورانی اوکاڑوی
ماں جی قبلہ علیھا الرحمہ کے بعد ’’ زندگی ‘‘ آسان نہیں رہی ۔ مجھے تو گویا پَر لگے ہوئے تھے ، اُڑتا پھرتا تھا ۔ کاش کہ مائیں زندہ ہی رہا کریں ۔ یکم ربیع الآخر 1426ھ سے عید الاضحی تک کسی سفر پر جی آمادہ ہی نہیں ہوا ۔ الحاج ہاشم یوسف منصور کے تین بچے ہیں ۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے ۔ جنوبی افریکا میں وہی میرے پہلے میزبان اور انہی کا گھر میرا گھر ہے ۔ اس خاندان کی یہ چوتھی نسل ہے جس سے ایمانی و روحانی تعلق کا ابا جان قبلہ علیہ الرحمہ سے تاحال بفضلہ تعالی تسلسل قائم ہے ۔ ہاشم بھائی کی بیٹی کی شادی سے ایک ہفتہ قبل مَیں وطن عزیز لَوٹ آیا تھا ، مَیں کیوں نہ رُک سکا ؟ اس کا انکشاف تو یہاں اپنے وطن آکر ہُوا ۔ میرے استاد گرامی حضرت شیخ الاسلام والمسلمین مولانا غلام علی صاحب اشرفی اوکاڑوی علیہ الرحمہ کی رحلت میری وطن واپسی کے دوسرے روز ہوئی ۔ دو برس قبل ہاشم بھائی نے میری زبانی اپنے دونوں بیٹوں کی نسبت طے کروائی تھی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
ستارے ناپ رہے ہیں مسافتیں میری
﴿ سفر نامہ آس ٹرے لیا﴾
کوکب نورانی اوکاڑوی
’’ سفر وسیلہ ظفر ‘‘ سنتا آیا ہوں اور زندگی کا سفر ہی نہیں زندگی میں بھی سفر کررہا ہوں ۔ تین دَہائیاں گزر گئیں ، پہلا بیرون ملک سفر زیارت و عمرہ کے لیے کیا تھا ، مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد زیادہ تر بیرون ملک سفر پیغام حق پہنچانے کے لیے ہوئے ۔ مسافتیںشمار کرنے بیٹھوں تو خود حیران ہوتا ہوں ۔ کچھ اسفار کی رُوداد لکھی تو پیشِ نظر یہی مقصد تھا کہ کچھ لوگوں اور ان کی خدمات کا تذکرہ ہوجائے تاکہ رابطے بڑھیں ۔ ان ممالک میں محبت و عقیدت سے پذیرائی کرنے والوں کا شکریہ یوں بھی ادا ہوجائے اور ایک مقصد یہ بھی کہ ان ممالک میں جانے والے نئے لوگوں کو معلومات فراہم ہوجائیں ۔ سفر نامے لکھتے ہوئے بھی کبھی غلط بیانی نہیں کی ، شرمندگی کا بار مجھ سے کہاں اٹھایا جائے گا ۔ یکم مارچ 2007ئ کو بھارت سے واپس آیا ، اس سفر کی رُوداد لکھنے بیٹھا تو تمام تفصیل لکھ گیا حالاں کہ بھارت کے حوالے سے دو سفر نامے پہلے بھی لکھ چکا تھا ۔ 4 اپریل سے 18 اپریل 2007ئ تک بہت طویل سفر کیا ہے مگر اس طویل سفر کی رُوداد قدرے اختصار سے بیان کروں گا ۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہٰ الکریم
جنوبی افریکا سے جنوبی ہند تک
﴿ سفر نامہ ﴾ کوکب نورانی اوکاڑوی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
ہند یاترا
کوکب نورانی اوکاڑوی
اللّٰہ کریم جل شانہ کے حبیب کریم Sal-lal-Laahu 'Alaiehi Wa Sal-lam کے ذکر مبارک کی محفلیں دنیا بھر میں اہلِ ایمان منعقد کرتے ہیں اور ان محافل میں خوب رونق ہوتی ہے ۔ جناب محمد شاہد اقبال قادری نوجوان ہیں ، ان کا تعلق جنوبی ہند کے صوبہ آندھرا پردیش کے مرکزی شہر ’’ حیدر آباد دکن ‘‘ سے ہے ۔ حیدر آباد ، انڈیا کا پانچواں اور دنیا کا 41 واں بڑا میٹرو پولی ٹن ایریا شمار ہوتا ہے ۔ سکندر آباد اس کے جڑواں شہر کی حیثیت سے برطانوی راج میں قائم ہوا ۔ان دونوں شہروں کو ’’ حسین ساگر ‘‘ ﴿ تالاب ﴾ جدا کرتا ہے ، اسے اب ’’ ٹینک بند ‘‘ کہا جاتا ہے ، اسے ابراہیم قطب شاہ نے 1562ئ میں بنایا ۔ حیدر آباد کو تاریخی ، ثقافتی اور خاص طرز تعمیر کے لحاظ سے نمائندہ اور ہند کے شمال و جنوب ملنے کا مقام کہا جاتا ہے ۔ جغرافیائی اور ثقافتی طور پر یہ زبانوں کی کثرت کا خطہ ہے ۔ تیل گو بولی میں یہاں کی اُردو کی خاصی آمیزش ہے اور یہاں کی اُردو دیگر علاقوں سے منفرد لہجہ رکھتی ہے ۔ اس میں مراٹھی الفاظ بھی ہیں ، اس خاص لہجے کو حیدر آبادی ہندی بھی کہا جاتا ہے ۔ بھارت کے ترقی یافتہ شہروں میں سے حیدر آباد ایک ہے ۔ حیدر آباد کے مرکز میں ’’ چار مینار ‘‘ محمد قلی قطب شاہ نے 1591ئ میں تعمیر کیے ۔ قطب شاہی دور 1590ئ میں موسی ندی
فدا ہو کے تجھ پہ یہ عزّت مِلی ہے
﴿بنگلادیش اور ماری شس کی رُودادِ سفر﴾
کوکب نورانی اوکاڑوی
اللّٰہ کریم جل شانہ‘اپنے آخری اور سب سے پیارے نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے۔ اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اہلِ ایمان کو درود و سلام بھیجنے کا حکم فرما کر انہیں بے پناہ سعادت وبرکت اوربخشش و نجات پانے کی راہ دکھائی۔ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا مقبول نیکی ہے، ہر وہ مومن جسے درود و سلام کی کثرت سے شغف ہے اس کی خوش بختی قابلِ رشک ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان کے پہاڑی علاقے ایبٹ آباد کے قریب قادری سلسلۂ طریقت کی ایک روحانی خانقاہ ہے اس جگہ کو ’’سیدآباد شریف ، شتالو،سری کوٹ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس خانقاہ کو آباد اور اس کے ذریعے خلق کو شاد کرنے والے مرد ِدرویش حضرت سیدنا خواجہ محمد عبدالرحمن صاحب چھوہروی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کا ایک نمایاں اعزاز وشرف یہ ہے کہ انہوں نے عربی زبان میں درود و سلام کے کلام پر مشتمل تیس پارے یادگاربنائے ہیں۔ اسے ’’ مجموعہ صلوات الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ کا نام وعنوان دیا گیا۔ اپنی نوعیت کا یہ مثالی کارنامہ ہے۔ ہری پور ہزارہ میں مقیم خاندانِ حضرت چھوہروی علیہ الرحمہ کے ایک شہ زادے نے برسوں پہلے یہ مجموعہ میری طلب پر مجھے عطا کیا تھا۔ گزشتہ 1425ھ میں اس مجموعے کی نئی عمدہ اشاعت مَیں نے جناب قاری مظہر عباس صاحب کے ذریعے حاصل کی۔ درود و سلام کی یہ برکت بھی کیا خوب ہے کہ جو کوئی اس حوالے سے کام کرتا ہے وہ اس دنیا می